
خلائی اداروں کے لیے سامان بنانے والے کچھ اداروں کے ماہرین اور کچھ خلا باز اس واقعہ کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں، ماہرین کے مطابق چاند پر خلائی گاڑی کو اتار کر واپس زمین پر لوٹ آنے کا تناسب ایک سو میں سے صرف اعشاریہ صفر صفر ۱یک سات فیصد ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناثا کی فراہم کی گئی تصاویر اور مناظر کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کے بعد ماہرین طبیعات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان تصاویر میں ایسی کئی خامیاں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ تصاویر چاند کی نہیں بلکہ زمین کے کسی حصے کی ہیں۔
مثلا چاند پر بنائی گئی تصاویر میں ستارے منظر سے غائب ہیں، حالانکہ ستاروں کا مشاہدہ ہم کائنات کی کسی بھی جگہ سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلاباز نے جب چاند پر امریکی جھنڈا گاڑا تو وہ لہرانے لگا جب کہ چاند پر ہوا ہی موجود نہیں۔ ایک اور پہلو یہ کہ خلاباز کے چاند کی سطح پر قدم رکھنے سے اسکا جوتا چاند کی زمین میں دھنس گیا لیکن ایک بڑی چاند گاڑی جس کا وزن ٹنوں میں ہے،وہ چاند کی زمین میں نہیں دھنسی اور نہ اسکے گرنے سے کوئی دھماکہ ہوا۔
ایسے ہی کچھ حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی ماہرین کے ایک گروہ نے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے واقع کو گزشتہ صدی کا سب سے بڑا دھوکہ قرار دیتے ہوے کہا کہ کسی بھی انسان نے چاند پر قدم رکھا ہی نہیں۔ اس دھوکے کے تمام حقائق کو بے نقاب کرنے کے لیے سرمایہ کاروں نے پانچ لاکھ ڈالر رقم فراہم کی ہے
سوال یہ ہے کہ امریکہ کو اس دھوکے سے کیا فائدہ حاصل ہوا اور کیا چاند پر انسان کا قدم رکھنا اتنا اہم تھا کہ اس کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کی جاتی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق جب امریکہ نے اپنے راکٹ کا چاند پر اترنے کا دعوہ کیا وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور روس نے 1956 میں اپنا ایک راکٹ خلا میں بھیج کر امریکہ پر اپنی برتری قائم کر لی تھی، اور امریکی دفاعی اداروں کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ روس خلا سے امریکہ پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے، ماہرین کے مطابق روس کی اس برتری کو توڑنے اور سرد جنگ جیتنے کے لیے کچھ ایسا کیا جانا ضروری ہے جو روسی اقدام سے بہت بڑھ کر ہو۔ چنانچہ امریکہ نے چاند پر انسانی قدم رکھنے کا جھوٹا مشن ترتیب دیا اور ایک راکٹ خلا میں چھوڑ دیا جو کچھ دن زمین کے گرد چکر لگاتا رہا اسی اثنا میں زمین پر مصنوعی سیٹ تیار کر کے خلا بازوں کے چاند پر قدم رکھنے کی تصاویر بنائیں اور اسے پوری دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
اس موضوع پر اور تحقیق آپ کو اس ویب سائٹ سے مل جائے گی۔ یہ تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ اس موضوع پر مختلف رائے ہیں اس لیے ہم کوئ دعوہ نہیں کر رہے، مناظر اور حقائق کو دیکھنے کے بعد آپ سچ کا خود فیصلہ کریں۔ اس ویڈیو میں بہت سارے دلائل اور حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
مثلا چاند پر بنائی گئی تصاویر میں ستارے منظر سے غائب ہیں، حالانکہ ستاروں کا مشاہدہ ہم کائنات کی کسی بھی جگہ سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلاباز نے جب چاند پر امریکی جھنڈا گاڑا تو وہ لہرانے لگا جب کہ چاند پر ہوا ہی موجود نہیں۔ ایک اور پہلو یہ کہ خلاباز کے چاند کی سطح پر قدم رکھنے سے اسکا جوتا چاند کی زمین میں دھنس گیا لیکن ایک بڑی چاند گاڑی جس کا وزن ٹنوں میں ہے،وہ چاند کی زمین میں نہیں دھنسی اور نہ اسکے گرنے سے کوئی دھماکہ ہوا۔
ایسے ہی کچھ حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی ماہرین کے ایک گروہ نے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے واقع کو گزشتہ صدی کا سب سے بڑا دھوکہ قرار دیتے ہوے کہا کہ کسی بھی انسان نے چاند پر قدم رکھا ہی نہیں۔ اس دھوکے کے تمام حقائق کو بے نقاب کرنے کے لیے سرمایہ کاروں نے پانچ لاکھ ڈالر رقم فراہم کی ہے
سوال یہ ہے کہ امریکہ کو اس دھوکے سے کیا فائدہ حاصل ہوا اور کیا چاند پر انسان کا قدم رکھنا اتنا اہم تھا کہ اس کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کی جاتی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق جب امریکہ نے اپنے راکٹ کا چاند پر اترنے کا دعوہ کیا وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور روس نے 1956 میں اپنا ایک راکٹ خلا میں بھیج کر امریکہ پر اپنی برتری قائم کر لی تھی، اور امریکی دفاعی اداروں کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ روس خلا سے امریکہ پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے، ماہرین کے مطابق روس کی اس برتری کو توڑنے اور سرد جنگ جیتنے کے لیے کچھ ایسا کیا جانا ضروری ہے جو روسی اقدام سے بہت بڑھ کر ہو۔ چنانچہ امریکہ نے چاند پر انسانی قدم رکھنے کا جھوٹا مشن ترتیب دیا اور ایک راکٹ خلا میں چھوڑ دیا جو کچھ دن زمین کے گرد چکر لگاتا رہا اسی اثنا میں زمین پر مصنوعی سیٹ تیار کر کے خلا بازوں کے چاند پر قدم رکھنے کی تصاویر بنائیں اور اسے پوری دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
اس موضوع پر اور تحقیق آپ کو اس ویب سائٹ سے مل جائے گی۔ یہ تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ اس موضوع پر مختلف رائے ہیں اس لیے ہم کوئ دعوہ نہیں کر رہے، مناظر اور حقائق کو دیکھنے کے بعد آپ سچ کا خود فیصلہ کریں۔ اس ویڈیو میں بہت سارے دلائل اور حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
- http://www.moonmovie.com
- http://www.apfn.org/apfn/moon.htm

0 comments:
Post a Comment