Tuesday, 6 March 2012

کیوں زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی محمد و آل محمد و لعنت اللہ علی اعدائھم اجمعین اما بعد۔۔۔
آیام عزا کی آمد آمد ہے اور یہ آیام جب بھی آتے ہیں تو مکتب حسینی سے وابسطہ افراد ایک مرتبہ پھر امام مظلوم کی بارگاہ میں تجدید عہد کے لئے میدان عمل میں نکل آتے ہیں، مگر جہاں پیروان ولایت حسین اپنے مولا و آقا کی تحریک کو ایک نئی شادابی بخشتے ہیں وہیں پیروان ولایت یزید بھی اپنے آقا کی حمایت میں سرگرم ہو جاتے ہیں اور اس کا ایک زندہ  ثبوت ہر سام محرم کی آمد پر بے سر و پا میسجس اور sms  ہیں جن کی بھرمار ہوتی ہے اور وہ اپنے عقیدے کا اعلان ان اچھوے ہٹکنڈوں کے ساتھ برملا کرتے ہیں۔ ان ہی اعتراضات میں سے ایک وہ گھسا پٹا شعر بھی ہے جو ہے تو اقبال سہیل  کا پر اسے علامہ اقبال جیسی عظیم ہستی سے منسوب کر کے نشر کیا جاتا ہے،جس کا بیسیون بار جواب نثر و نظم دونوں میں دیا جا چکا ہے مگر پھر بھی اس کو جام فتح سمجھ کر پیا اور نکارہ کامیابی سمجھ کر بجایا جاتا ہے اور یہ جدل و فریب لشکر یزید کی جانب سے نیا نہین ہیں کہ وہ باسی اور ۱۰۰ بار کے چابائے ہوے سوالوں سے استدلال کرنے کو اپںی نامنہاد فتح سمجھتے ہیں، پر مکتب حسین کی ہمیشہ سے یہ صفت رہی ہے کہ ان کی دامن میں یزیدی توپ کے ہر گولے کے جواب میں الغدیر میزائیل ہوتا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ کیوں کہ اس شعر کا علمی محاکمہ اور تحلیل اس لئے بھی ضروری تھی کہ اس توپ کے ناکارہ گولے کو عوام کی انکھوں کے سامنے برملا کرنا ضروری تھا جس میں شاعر موصوف نے اپنے زعم میں بڑا فلسفہ بیان کیا تھا اور پھر مجھے اس سے متعلق کچھ سوالات بھی موصول ہوئے اس لئے اس پر قلم اٹھانے کی ہمت کو یکجا کیا گیا۔ تاکہ سب کے لئے یکسان مفید رہے۔
وہ شعر کچھ یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئیں وہ جو قائل ہوں ممات شہداء کے، ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
ائیے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اسلام شہداء کے بارے میں ایک منفرد نظریہ رکھتا ہے جسے حیات کہتے ہیں مگر جو موت و حیات شہداء سے متعلق ہے وہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ظاہر سی بات ہے کہ شہداء کی زندگی وہ مادی زندگی تو ہے نہیں جس لحاظ سے انہیں قبل شہادت زندہ اور ظاہری طور پر اس دار دنیا سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلام میں شہداء کا ترکہ بھی تقسیم ہوتا ہے ان کے اطفال حکم یتیمان میں بھی آتے ہیں اور ان کی ازراج پر بیوہ کے لفظ کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ اگر ان کے لئے کسی بھی صورت سے موت کے تصور کا انکار کر دیا جائے تو ان کے متروکہ کی تقسیم، ان کے اطفال کی یتیمی اور ان کی ازواج کی بیوگی بلکل بےبنیاد ہے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ شرع مقدسہ میں شہید کی زوجہ کو عقد ثانی کی اجازت حاصل ہے اور اگر کسی شوہردار زن کا مرد زندہ ہو تو وہ عقد ثانی نہیں کر سکتی۔ اسی طرح شہید کے لئے غسل و کفن نہیں ہے مگر اگر یہ تصور رہے کہ اس پر موت کا کسی صورت سے اطلاق نہیں تو پھر اس پر نہ نمار میت ہونی چاہیے نہ ہی دفن کیوں کہ اس کا بھی تعلق موت سے ہے زندگی سے نہیں اور زندوں کو درگور کرنا جائز نہیں۔
تو معلوم ہوا کہ شہداء کی جو زندگی ثابت کی گئی ہے وہ ارتقائے بشریت کا کوئے خاص مرتبہ ہے۔ اب اس طرح سے دیکھا جائے تو اگرچہ اولیائے الہی میں سے کسی پر لفظ شہید کو اصطلاحی طور پر نہ بھی بولا جاتا ہو مگر ان کے لئے موت نہیں بلکہ زندگی جاویدانی  ہے مگر اس کے مدارج باعتبار مراتب تقرب جداگانہ ہونگے۔  رسول اسلام  ص کی متفقہ حدیث ہے جس کو سید علی ہمدانی نے مودۃ القربیٰ کے بلکل آخر کے صفحات میں بھی نقل کیا ہے کہ
“من مات علی حب آل محمدا مات شھیدا”
جو بھی آل محمد کی محبت میں مرا وہ شہید مرا
بے شک فقہی احکام مثلا غسل و کفن کا ساقط ہونا یہ شہید مبارز در میدان سے مخصوص  ہے مگر شہادت کا حصول ہر مومن کے لئے بقدر ایمان ممکن ہے، اور جب مومن کے لئے ممکن ہے تو انبیاء کا تو تذکرہ ہی کیا۔
اب اس مذکورہ بالا شعر کے مضمون پر غور کیجیئے جو کہتا ہے کہ ” زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرنا چاہیے” تو جیسے پہلے بیان ہوا کہ زندگی جاوید حسن عمل سے وابسطہ ہے تو اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ ماتم کے قابل وہ ہیں جو انتہائی بد عمل ہوں، اور حسن عمل رکھنے والوں کا ماتم نہیں ہونا چاہیے۔ اب اس شعر سے ثابت ہونے والےنتیجہ  کو ہم قران پر پیش کرتے ہیں کیوں کہ اعتراض کرنے والا بظاہر مسلمان ہے اور اس نے جو کچھ کہا ہے اسے زیر لب تبسم کے ساتھ شاعرانہ کیف کو محسوس کرتے ہوئے نظر انداز نہین کیا جا سکتا کیوں کہ یہ شعر صغری و کبری کو مرتب کر کے ایک پوری قوم کے ایک خاص عمل پر انگشت اعتراض ہے۔
آیت قران سامنے ہے، جب لشکر فرعون غرق ہوا تو ارشار قدرت ہوا،
فَما بَكَتْ‏ عَلَيْهِمُ السَّماءُ وَ الْأَرْضُ وَ ما كانُوا مُنْظَرينَ (29) الدخان
نہ ان پر اسمان ر ویا اور یہ زمین نے گریا کیا اور نہ انہیں اللہ کی طرف سے مہلت دی گئی۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک کنایہ ہے جو ان کی بداعمالیوں پر دال ہے۔ کنایہ میں کسی چیز  کی حقیقت کے  آثار و لوازم کا تذکرہ کر کے ذہن کو اس کی حقیقت کی طرف متوجہ کرایا جاتا ہے نہ یہ کہ اس کی ضد کے لوازم کو بیان کیا جائے، مثلا یہ بتانا ہوکہ صبح ہو گئی ہے تو  یہ کہا جائے گا کہ روشنی ہو گئی ہے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اندھیرا ہو گیا ہے جو شام کے لوازم میں سے ہے۔ تو اب دیکھے کہ بقول شاعر رونا اسے چاہیے جو بد اعمال ہو نہ کہ اسے جو خوش عمل ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رونا بد اعمالی کا نتیجہ ہے خوش اعمالی کا نہیں مگر قران تو کچھ اور ہی کہہ رہا ہے کہ “ان پر اسمان اور زمین نے گرا نہیں کیا”  اس سے ثابت ہوا کہ بد اعمالی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس پر نہ رویا جائے، اس کے مقابل جو حسن عمل رکھتے ہوں وہ مستحق گریا ہوں گے۔ تو اب جانے والا جتنا بلند مرتبہ اور مرکز فیوض و براکات ہو گا اس کا اٹھنا اتنا ہی باعث ماتم و گریا ہو گا۔
ہر چند کہ زمین و آسمان کا گریا کرنا مجاز عقلی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ “پورا شہر گواہ ہے” یعنی کہ اہل شہر گواہ ہیں، اسی طرح  زمین و آسمان کا رونا ان کے اہل کی طرف راجع ہے، مگر اٹھنے والے کی شخصیت پیش خدا کیا ہے، کے لحاظ سے یہ مجاز حقیقت بھی بن سکتا ہے، تو پھر اگر زندہ و جاوید پر اسمان و ز٘مین گریا کر سکتے ہیں جن کا ہر فعل تابع فرمان الہی ہے تو معلوم ہوا کہ ہم اس کا ماتم بھی کریں تو مرضی الہی کے مطابق ہو گا۔
ائیے اب اس معممہ کو دوسرے رخ سے  دیکھتے ہیں۔ شہداء کی خبر حیات ہمیں رسول ص کے ذریعے سے ہوئی تو یقینا آپ اس حیات کے تقاضوں سے ہم سے زیادہ واقف ہوں گے، تو ائیے دیکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں رسول ص اس حوالے سے کیا عمل کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
کیا جناب حمزہ ع شہید ہیں کہ نہیں؟ ان کے شہید ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جو سید الشہداء کے لقب سے ملقب ہو۔ سو ان کے زندہ و جاوید ہونے میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا۔ مگر حمزہ کی شہادت کے بعد کیا ہوا، خوشی یا گریا و ماتم۔۔۔۔۔؟ خوشی کے شادیانے تھے یا غم کی آہیں اور سسکیاں۔۔۔۔؟ تو اگر حمزہ کی شہادت پر رسول ہنستے ہوئے مل جائیں تو رونا بدعت اور اگر رسول روتے پائے جائیں تو رونا سنت اور خوشی منانا بدعت ہو گا۔
حضرت حمزہ کی شہادت ہوئی ان کی بہن صفیہ روتی ہوئی میدان میں آئیں لاش برادر پر گریہ شروع کیا اس موقعے پر یہ نہیں ہوا کہ رسول ص نے کہا ہو کہ کیوں زندہ و جاوید کو روتی ہو کیا شہید کی حیات میں شک ہے۔۔۔؟ مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ خود صفیہ کے ساتھ رونے میں شریک ہو گئے۔ 
مدینے پہنچے سب گھرون سے رونے کے صدائیں بلند تھیں حمزہ کا گھر خاموش رسول ص نے کہا کیا کوئی حمزہ کو رونے والا نہیں جب اس کی خبر انصار کو ملی تو  اپنی خواتین کو حمزہ کے گھر بھیج دیا اور گریا و زاری کی صدائیں بلند ہوئیں۔ 
   {تاریخ طبری، جلد ۲، صفحہ ۱۹۱، طبع نفیس اکیڈمی کراچی/ معارج النبوۃ، جلد ۲، صفحہ ۱۶۵ ، ۱۷۹، طبع شبیر برادرز لاہور، اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۶۰۵، سیرت الحلبیۃ، جلد ۲۔ صفحہ ۲۲۴ ، البدایۃ و النھایۃ، جلد ۵، صفحہ ۳۷۴ }
[ان مذکورہ کتب کے سکین پجیسس مومنین کی سہولت کے لئے تحریر کے آخر میں دستیاب ہیں]
تو اب ہم یہ سوال کونے کا حق رکھتے ہیں کہ بے شک کہ رسول ص ظاہری طور پر واقعہ کربلاء کے وقت حیات نہیں تھے مگر اگر رسول موجود ہوتے تو کیا ان کی حالت اس سے مختلف ہو سکتی تھی جو اپنے چچا کی شہادت دردناک پر تھی، بلکہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی چیز حائل نہیں کہ اپنے نواسے کی شہادت کربناک پررسول کی حالت زار اس سے بھی زیادہ سنگین و بیان سے باہر ہوتی۔ کیوں کہ کجا ایک جنازہ مثلہ شدہ اور کہاں گھر کے اٹھارہ چراغ  جو گھڑوں کی ٹاپوں سے زد پائمالی پر تھے، یہیں سے ہمیں سنت رسول کے بابت آسانی سے علم ہو جاتا ہے۔
ہمیں اس وقت یہ خطرہ گلوگیر ہے کہ کہیں تحریر  کا دامن زیادہ تجاوز نہ کر جائے وگرنہ ہم سنت پیمبر ص سے اس کی کئی ایک مثالیں عرض کر سکتے ہیں پر قاری کی طبعیت پر زیادہ سنگینی کے خیال سے اس ہی پر قناعت کرتے ہیں۔
تو اب کس طرح کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ کہے کہ ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے، اور اگر اب بھی کہے گا تو فرمان رسول و سیرت پیمبر ص سے بغآوت ہے
اس کے علاوہ جو شہادت پا کر زندہ ہوا ہو وہ تو ایک طرف قران میں تو زندہ پر رونے کا پتہ ملتا ہے۔ اور اس پر حضرت یعقوب ع کا جناب یوسف ع پر گریا کرنا دال ہے جس سے ان کی انکھیں تک سفید ہو گئیں ۔
تو اب اگر ہم اس شعر کا جواب شعر سے دینا چاہین تو یوں کہیں گے کہ
کیا روئو گے ان کو جو ہلاک ابدی ہیں کیون زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
کیون کہ قران و حدیث تو یہی کہتے ہیں کہ زندہ و جاوید کا ہی ماتم ہونا چاہیے۔ اب اگر کسی کو یہ ناپسند ہو تو وہ ان کو رو سکتا ہے جو ہلاک ابدی ہیں،
یہاں پر میں بس اس بات پر اس تحریر کو ختم کروں گا کہ کہا جاتا ہے کہ رونا بزدلی کی نشانی ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ میدان جنگ میں جان جانے کے خوف سے رونا بزدلی ہے مگر کسی خطرناک جہاد میں عدم شرکت کی وجہ پر رونا بزدلی نہیں عین بہادری ہے۔ کربلاء میں زخم کھآتے خون بہاتے مجاہدین نہیں روئے بلکہ بریر اور عبد الرحمن آپس میں مذاق کرتے دیکھائی دیے، حتی کہ اصغر ع بھی مسکراتے دیکھائی دیے، مگر امام سجاد ع ساری عمر آنسو بہاتے دیکھائی دیے۔
تو ہمارا رونا اس وجہ سے ہے کہ ہم اس محاذ میں شامل نہ ہو کر دینا و آخرت کی سعادت کو نہ پا سکے پر اب اس پر آنسو بہا کر اس مقصد سے قرب حاصل کرتے ہیں اور بے چینی سے انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں نصرت حق کاموقع ملے اور کب ہمارا خون شہداء کربلاء سے جا ملے۔
دعا ہے کہ ہماری اس سعی ناچیز کو بارگاہ امامت میں شرف قبولیت عطا ہو، اور ہمارے معاصی بے حساب کی مغفرت کا سامان ہو جائے۔ آخر میں خیر طلب بھائی کے بھی ممنون ہیں جنہوں نے ہمیں سکین پیجز عنایت فرمائے خداوند متعال بتصدق آل محمد ص ان کی توفقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ امین
                                                                                                 
طالب دعا
                                                                                          سید حسنین رضا بخاری

2 comments:

Unknown said...

Enter your comment...ٹھیک ہے کہ نبی کریم ص نے امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے شہادت آنسو بہائے ہوں گے مگر یہ آنسو اور ماتم پھر ہر سال امیر حمزہ کے یوم شہادت پر نہیں کیا ہوگا، لیکن اہل تشیع حضرات تو ہر سال سڑکیں بند کرکے ماتم کرنے میں مصروف ہے جس کے باعث نہ صرف پورا پاکستان پریشان ہو گا بلکہ راستے بند ہونے سے عوام شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں

Unknown said...

مت لاؤ خرافات کو آبادیوں میں تم

کیوں اپنے ٹھکا نو ں میں یہ ماتم نہیں کرتے

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Walgreens Printable Coupons